Wednesday, 24 February 2021

Sargodha University

یونیورسٹی آف سرگودھا

فوزیہ ملک

 
  ڈی مینٹورنسی کالج 1929 میں شاہ پور صدر میں قائم ہوا۔ ڈی مینٹورنسی ایک زمانے میں گورنر تھا اس کے نام پر انٹرمیڈیٹ کالج کا نام رکھا گیا اور بعد میں اس کالج میں ڈگری کلاسز  کا آغاز ہوا۔بعد ازاں اس کا نام آزادی سے قبل شاہ پور میں گورنمنٹ کالج سرگودھا رکھا گیا ۔ 1946 میں کالج کو سرگودھا شفٹ  کر دیا گیا۔آج سے ایک دہائی قبل کون جانتا تھا کہ شاہینوں کے شہر سے طلوع ہونے والا سورج نہ صرف اس شہر اور اس کے مضافات کو روشن کر دے گا بلکہ یہاں سے نکلنے والی علمی و تحقیقی کاموں کی منور کرنیں صوبہ بھر میں ایک عظیم علمی انقلاب برپا کر دیں گی۔ آج پاکستان میں سرگودھا یونیورسٹی کا شمار صف اول کی جامعات میں ہوتا ہے۔
 سرگودھا یونیورسٹی کا قیام نومبر 2002ءمیں عمل میں آیا اور آج یہ ادارہ شہر سرگودھا کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ یونیورسٹی میں اس وقت آٹھ فیکلٹیز ہیں۔ فیکلٹی آف ایگری کلچر، فیکلٹی آف آرٹس سوشل سائنسز اینڈ لا، فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ آف مینجمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریٹوو سائنسز ، فیکلٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، فیکلٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز، فیکلٹی آف فارمیسی اور فیکلٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ یونیورسٹی میں اس وقت (18000) اٹھارہ ہزار طلباءو طالبات زیر تعلیم ہیں۔ سال 2007ءمیں یہ تعداد صرف (5000) پانچ ہزار تھی لیکن اب اس میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ غیر معمولی کامیابی ادارے پر طلبہ و طالبات اور ان کے والدین کے بھرپور اعتماد کا مظہر ہے۔
 نیز 2006ءمیں صرف42 پروگراموں میں تعلیم دی جا رہی تھی اور اب2012ءمیں یہ تعداد 137 ہے جن میں کم وبیش 53 پروگرام ایم فل/ پی ایچ ڈی کے لئے ہیں۔ جامعات صحیح معنوں میں تحقیق سے ہی پہچانی جاتی ہیں اور تحقیق ہی جامعات کے ماتھے کا جھومر ہوتا ہے۔ اس سال 2011ءمیں ہائر ایجوکیشن اسلام آباد کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سرگودھا ملک بھر کی تمام جامعات میں اس وقت ساتویں نمبر پر ہے۔ اس کامیابی کی سب سے بڑی وجہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کا وژن اور بہترین اساتذہ ہیں جن کی تعداد 624 ہے ان میں پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد 152جب کہ150ایم فل ہیں۔
قابل اور محنتی اساتذہ کے جہاں انٹرنیشنل ریسرچ جرنلز میں پیپر شائع ہو رہے ہیں وہاں یہ سائنس کی دنیا میں اپنے لئے اور سرگودھا یونیورسٹی کے لئے نیک نامی کما رہے ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی کے ڈاکٹر شاہد اقبال نے جدید تحقیق سے خوردنی تیل کی مدت استعمال کو ایک سال تک بڑھا دیا ہے۔ زراعت کے حوالے سے سرگودھا یونیورسٹی نے انتہائی حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا ہے۔ ایک نوجوان سائنسدان ڈاکٹر عامر علی نے گنے کی ایک ایسی ورائٹی متعارف کروائی ہے جو8 سے12 سال تک (کانا) نہیں ہو گی اور اس سے پیداوار دو گنا ہو جائے گی نیز اس قابل سائنسدان نے ایک پودے (Stevia) کے ذریعے چینی کا متبادل بھی تلاش کر لیا ہے۔ اسی طرح جیلاٹن نے جو پہلے صرف ہڈیوں سے حاصل ہوتا تھا لیکن سرگودھا یونیورسٹی کی ڈاکٹر شازیہ نے اس کا متبادل اسپغول سے حاصل کر لیا ہے۔ 
سرگودھا یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی کے بعد صوبہ پنجاب کی دوسری بڑی جامعہ ہے جس کے ساتھ350 تعلیمی اداروں کا الحاق ہے جو ادارہ پر بھر پور اعتماد کی نشاندہی کرتا ہے۔ مالی مشکلات کے اس دور میں سرگودھا یونیورسٹی نے خود انحصاری کی ایسی حکمت عملی اپنائی ہے کہ اس سے ایک جانب عوام الناس کی خدمت ہو رہی ہے تو دوسری جانب یہ منصوبے فراہمی و سائل کا بھی باعث بن رہے ہیں۔سرگودھا یونیورسٹی نے اس وقت اپنے وسائل سے بین الاقوامی معیار کا میڈیکل و تشخیصی سنٹر قائم کیا ہے جہاں آغا خان اور شوکت خانم کے معیار کے ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں نیز ایک جدید اور معیاری فارمیسی بھی قائم کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خوش آب کے نام سے منرل واٹر بھی تیار کیا گیا ہے (Pakistan Quality Control) نے اس پانی کو پاکستان کا سب سے بہترین منرل واٹر قرار دیا ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی نے ان تمام کاوشوں کے ساتھ ایک ایسی سائنسی لیبارٹری (Tissue Culture Lab) قائم کی ہے جو لاگت میں کم لیکن اپنے کام اور نتائج کے اعتبار سے بہترین اور منفرد ہے۔
 انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں جامعہ سرگودھا اپنی مثال آپ ہے جہاں یونیورسٹی میں 20 ایم بی سپیڈ پر بالکل فری انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو باخبر رکھنے اور انہیں صحت تعلیم اور دیگر معاشرتی موضوعات کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لئے کےمپس ریڈیو ایف ایم98.2 (VOV) کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی نشریات شام 4 بجے سے رات9 بجے تک سنی جا سکتی ہیں۔ یونیورسٹی آف سرگودھا کی سنڈےکیٹ نے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے لازمی عوامی خدمت کی منظوری دی ہے جس کے مطابق یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد طالب علموں کو ڈگری اس وقت ملے گی جب وہ کم از کم اپنے متعلقہ مضامین کی عام شہریوں کو بنیادی معلومات سے روشناس کرائیں گے۔ سرگودھا یونیورسٹی کے اس اقدام کو سارے ملک میں سرہا جا رہا ہے۔ اب ملک بھر کے بے شمار تعلیمی ادارے سرگودھا یونیورسٹی کے ہم نصابی پروگرام کی تقلید کر رہے ہیں۔
ہم نصابی سرگرمیاں کسی بھی تعلیمی ادارے کے لئے باعث عزت و تکریم ہوتی ہیں۔ جامعہ سرگودھا کے دو اتھلیٹ تنویر عباس اور فرحت بتول پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل رینکنگ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2011-12ء اور چیف منسٹر پنجاب سپورٹس فیسٹول میں جامعہ سرگودھا نے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ واضح رہے کہ یونیورسٹی کی ہونہار طالبہ فرحت بتول نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سپورٹس مقابلہ جات میں 3 نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ جامعہ سرگودھا کا ہم نصابی فورم انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ فورم پروفیسر ریاض احمد شاد کی نگرانی میں ملک بھر میں تلاوت، نعت، نظم، غزل ، مضمون نویسی اردو، انگریزی اور پنجابی مباحثے اور بیت بازی میں غیر معمولی نتائج دکھا رہا ہے۔ سال 2012ء کی اب تک کی رپورٹ کے مطابق ادارے کے ہونہار طلبہ نے 35 انعامات لے کر پاکستان کی سب جامعات میں اول پوزیشن حاصل کی ہے۔ 
یونیورسٹی آف سرگودھا میں اس وقت تعمیراتی کام بھی عروج پر ہے جس میں اساتذہ کے لئے نئی رہائشوں کی تعمیر، سٹوڈنٹس، ٹیچنگ سنٹر کا قیام، شعبہ قانون کی نئی عمارت ، شعبہ بائیو لوجیکل سائنسز کے ساتھ 14 نئے کلاس رومز کی تعمیر ،400 طالبات کی گنجائش کے لئے گرلز ہاسٹل کا قیام۔ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کالج آف ایگری کلچر میں بوائز ہاسٹل کی تعمیر ، سرگودھا میڈیکل کالج میں نئی رہائشوں کی تعمیر، مسجد اور کےفے ٹیریا کا قیام نیز نیو کیپمس چک 51 بی میں ابتدائی طور پر تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے۔
سرگودھا یونیورسٹی ملک بھر کی واحد جامعہ ہے جس کا بجٹ خسارے میں نہیں بلکہ اضافے میں جاتا ہے اور ادارے میں یتیم طلباءو طالبات کی فیس معاف ہے۔ حفاظ کرام کے حوالے سے بھی یہ جامعہ بہت خوش قسمت ہے جس میں اس وقت 597 حفاظ زیر تعلیم ہیں جن میں 150 حافظہ طالبات اور 447 حافظ طلباءشامل ہیں کی مکمل ٹیوشن فیس بھی معاف ہے۔ یونیورسٹی آف سرگودھا مالی مشکلات کے اس دور میں ایک انتہائی سستی اور معیاری جامعہ ہے جس نے گزشتہ پانچ سال سے کوئی فیس نہیں بڑھائی۔


No comments:

Post a Comment